پاکستان میں قتل ہونے والے امریکی صحافی ڈینئیل پرل کی یاد میں عالمی میڈیا کی آزادی سے متعلق قانون پر صدر اوباما نے دستخط کردئیے ہیں۔ اس نئے قانون کے تحت امریکی محکمہ خارجہ کو دنیا کی ان حکومتوں کی باقاعدہ فہرست تیار کرنی ہوگی جو آزادی صحافت کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ اس قانون سے دنیا کو یہ پیغام ملے گا کہ امریکی حکومت کے لئے یہ جاننا اہم ہے کہ وہ کونسی حکومتیں ہیں جو اپنے میڈیا کے ساتھ صحیح سلوک نہیں کرتی ہیں۔ اس قانون کا نام مقتول امریکی صحافی ڈینئیل پرل کی یاد میں ڈینئل پرل فریڈم آف پریس ایکٹ رکھا گیا ہے۔اخبار ‘وال سٹریٹ جرنل’کے صحافی ڈینئل پرل کو 2002ء میں کراچی سے اغوا کیا گیا اور بعد میں انہیں قتل کر دیا گیا تھا۔ قانون پر دستخط کرنے کے موقع پر پرل کے والدین ، ان کی بیوہ میرئین پرل اور ان کے سات سالہ بیٹے ایڈم پرل موجود تھے ۔ اس موقع پر امریکی صدر نے کہا کہ اس قانون کے ذریعے آزادی صحافت کو دبانے والی حکومتوں کو یہ پیغام ملے گا کہ ایسا رویہ ناقابلِ قبول ہے اور اس سلسلے میں انہیں جواب دہ ہونا پڑے گا۔ صدر اوبامانے کہا کہ ڈینئل پرل کی ہلاکت نے ہمیں یہ یاد دلایا کہ آزادی صحافت کتنی زیادہ اہم ہے۔ اس قانون کے ذریعے ہم آزادی صحافت کی حمایت کر رہے ہیں۔جبکہ اس ضمن میں آزادی صحافت کی جدوجہد کرنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کو ایک نئے امریکی قانون کے مسودے پر بھی دستخط کرنا چاہئے جس میں اس بات کو بھی لازم قرار دیا جائے کہ دنیا بھر کے خفیہ ادارے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے میڈیا کا ٹائٹل استعمال کرنے سے اجتناب کریں کیونکہ یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے دنیا بھر میں آزادی صحافت کی بدنامی کے ذمہ دار عالمی طاقتوں کے خفیہ ادارے بھی ہیں جن کے اہلکار یا تو خود صحافتی ٹائٹل استعمال کرتے ہیں یا میڈیا تنظیموں میں اپنے اہلکاروں کو پلانٹڈ کرتے ہیں۔ بعد میں پکڑے یا مار ے جانے کے بعد یہ ان ملکوں کے خلاف آزادی صحافت کی غیر تسلی بخش صورتحال پر رپورٹیں شائع کر کے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں جبکہ امریکا نے کہا ہے کہ جوہری تنازع کے حل کے لئے ایران سے کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ بات کرنے پر تیار ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان فلپ کراؤلی نے کہا ہے کہ گفتگو کیلئے ضروری ہے کہ پہلے ایران اپنے جوہری پروگرام پر پائے جانے والے عالمی برادری کے خدشات دور کرے کیونکہ وہ اب تک اس میں ناکام رہا ہے۔ اگر تہران ثابت کر دیتا ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام پر امن مقاصد کے لئے ہے تو امریکا اس سے کسی بھی جگہ اور کسی بھی وقت مذاکرات کرنے پر تیار ہے۔ تاہم واشنگٹن ایران کے خلاف اقوام متحدہ کے ذریعے پابندیاں لگانے کے لئے کام جاری رکھے گا ۔ امریکہ اور دوسری مغربی طاقتوں نے یہ بھی کہا ہے کہ انہیں ایران کے جوہری پروگرام پر سخت تشویش ہے اگرچہ ایران نے کچھ افزودہ یورینیم ، ترکی بھیجنے کا وعدہ کیا ہے۔ ایرانی دفترِ خارجہ کے ترجمان رامین مہمان پرست کے مطابق کہ تہران بارہ سو کلو گرام کمتر مقوی یورینیم کے بدلے میں(جو کہ اس کے ذخیرے کا نصف سے ذرا زیادہ ہے) اعلیٰ تر افزودہ ری ایکٹر ایندھن حاصل کرنے پر تیار ہے۔ جبکہ وائٹ ہاؤس کے ترجمان رابرٹ گبز نے بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ ایران کی جانب سے یہ مثبت اقدام ہوگا کہ وہ کمتر افزودہ یورینیم کو اپنی سرزمین سے باہر کر دے۔ تاہم مسٹر گبز نے کہا کہ ایران کا یہ کہنا کہ وہ اپنا20فیصد افزودگی کا پروگرام جاری رکھے گااقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی واضح خلاف ورزی ہے۔ دریں اثناء برطانوی عہدیدار ایلسٹیئر برٹ نے کہا ہے کہ ایران پر تعزیرات کا چوتھا دور اس وقت تک ختم نہیں کیا جائے گا جب تک ایران، عالمی برادری پر ثابت نہیں کر دیتا کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لئے ہے۔ روسی صدردمتری میدویدیف نے بڑے محتاط انداز میں ایران کا خیر مقدم کیا ہے کہ وہ اس معاہدے پر تیار ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ تما بڑی طاقتوں سے مشاورت ضروری ہے تاکہ اس تشویش کا سدباب بھی کیا جاسکے کہ ایران بدستور یورینیم افزودہ کر رہا ہے ۔ تاہم ترک اور برازیلی رہنماؤں سے مذاکرات کے بعد ایران نے یورینیم کو افزودگی کے لئے بیرون ملک بھیجنے کے معاہدے پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔ ایران کی وزارت کارجہ کے مطابق ان کا ملک ریسرچ ری ایکٹر کے لئے جوہری ایندھن کی فراہمی کے بدلے بارہ سو کلو کم افزودہ یورینیم ترکی بھیجنے کو تیار ہے۔ یہ معاہدہ ایران بہتر تعلقات کے حامل ممالک برازیل اور ترکی کی مدد سے مذاکرات کے نئے سلسلے کے بعد ہوا ہے اور اس پر تینوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے دستخط کئے ہیں۔ اسی معاہدے کے سلسلے میں برازیل کے صدر ڈی سلوا لولا اور ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردگان بھی ایران پہنچے تھے ۔ اس معاہدے کے نتیجے میں ایران ممکنہ طور پر سلامتی کونسل کی پابندیوں سے بچ جائے گا۔ گزشتہ برس مغربی قوتوں نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ ایران اپنے کم افزودہ یورینیم کے ذخائر روس اور فرانس منتقل کردے جو اسے جوہری ری ایکٹر کے ایندھن میں تبدیل کرکے واپس ایران بھیجیں گے۔ اس پیشکش کا مقصد ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے امکان سے باز رکھتے ہوئے جوہری توانائی کے فوائد مہیا کرنا تھا۔ ایران نے اس پیشکش پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا تھا
اور وہ اب یورینیم فرانس یا روس کی بجائے ترکی بھیجنے پر رضامند ہوگیا ہے۔ معاہدے کے بعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی وزارت کارجہ کے ترجمان رمین مہمان پرست نے کہا کہ ترکی ہی وہ جگہ ہے جہاں ایران کا ساڑھے تین فیصد کم افزودہ یورینیم جائے گا ۔ ان کا کہنا تھا کہ بارہ سو کلو گرام یورینیم ترکی بیجا جائے گا اور ایراسن اس سلسلے میں آئی اے ای اے کو ایک ہفتے کے اندر اندر مطلع کر دے گا۔ اس معاہدے میں یہ واضح نہیں کہ یہ کم افزودہ یورینیم ایندھن کی تیاری میں استعمال ہوگا یا سے بطور ضمانت رکھا جائے گا ۔مغربی ممالک اس معاہدے کوسلامتی کونسل کی سخت پابندیوں سے بچنے کی کوشش قرار دے سکتے ہیں۔ خیال رہے کہ ترکی اور برازیل دونوں سلامتی کونسل کے رکن ہیں اور انہیں ان پابندیوں پر رائے شماری میں بھی حصہ لینا تھا۔معاہدے کے بعد ترک وزیر خارجہ احمد دعوتوگلو نے کہا ہے کہ اب ایران کے خلاف نئی پابندیاں لگانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ معاہدہ ظاہر کرتا ہے کہ ایران ایک تعمیری راہ کھولنا چاہتا ہے۔اب نئی پابندیوں یا دباؤ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس معاہدے کے بعد ایران کے صدر محمود احمد نژاد نے بھی عالمی رہنماؤں سے کہا ہے کہ وہ نئے سرے سے مذاکرات کریں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ ایران سے ایمانداری ، انصاف اور باہمی احترام پر مبنی بات چیت کا وقت ہے۔ خیا ل رہے کہ ایران سلامتی کونسل کی نئی پابندیوں کے نفاذ کو روکنے کے لئے بڑے پیمانے پر سفارتی کوششیں کر رہا ہے ۔ اسی سلسلے میں ایرانی وزیر خارجہ سلامتی کونسل کے تمام پندرہ رکن ممالک کا دورہ کررہے ہیں جبکہ تہران میں ایرانی صدر کی یہ کوشش ہوگی کہ وہ اپنے برازیلی ہم منصب سے ملاقات میں انہیں آمادہ کر سکیں کہ برازیل سلامتی کونسل میں اپنی نشست کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایران پر مجوزہ پابندیوں کے خلاف ووٹ دیں۔ قاہرہ کی تقریر میں صدر اوباما نے ایسی حکومتوں کی حمایت کا عہد کیا تھا جو اپنے عواام کے اظہار رائے کی آزادی کے حق کی حفاظت کرتی ہیں، جو قانون کی حکمرانی اور سب کو برابر کے انصاف کی فراہمی کی علمبردار ہیں،جو شفاف ہیں اور اپنے عوام کے حقوق پر ڈاکہ نہیں ڈالتیں۔