سرکاری تعلیمی اداروں کا گرتا ہو معیار تعلیم تحریر محمد عمر شاکر
قیام پاکستان سے لیکر آج تک ہر مسند اقتدارپر فائزہونے والے حکمران نے مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان میں معیار تعلیم کو بہتر بنانے کیلئے بھر پور اقدامات کرنے پر زور دیا مگر ہر گزرتے دن اور ہر بدلتی حکومت کے ساتھ ساتھ سرکاری تعلیمی اداروں میں بڑھتی ہوئی سیاسی مداخلت اور اساتذہ پروفیسرز یونینز کے اثر و رسوخ سے سرکاری تعلیمی اداروں کا مورال گرتا ہی جا رہا ہے
پاکستان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلباء طالبات کی شرح دنیا کے دیگر ممالک سے بہت کم ہے صرف صوبہ پنجاب میں ہر سال بیس لاکھ سے زائد بچے بچیاں پہلی کلاس میں داخل ہوتے ہیں ان میں سے پانچ لاکھ سے بھی کم دس سال کے عرصہ میں میٹرک کا امتحان پاس کرتے ہیں جبکہ کالجوں اور یونیورسٹیز میں یہ تعداد چند ہزار تک پہنچ جاتی ہے اس کی کیا وجوہات ہیں ان کا کیسے خاتمہ کیا جائے اس بابت ریاستی اداروں نے اس حل کرنے کے لئے کبھی غور ہی نہیں کیا پہلی وجہ والدین کی غربت یا وسائل کی کمی جبکہ دوسرا تعلیمی وسائل کا فقدان کا ہے میاں عمر افضل کے مطابق تعلیم حاصل کرنے کا مقصد ہی اکثریت نے روز گار کا حصول بنا لیا ہے یونین کونسل کی سطح تک بچے کی پیدائش سے لیکر پرائمری تک اس کی ایجوکیشن کی نگرانی کی جائے پرائمری پاس کرانے تک غریب اور متوسط طبقے کے خاندانوں کی ریاست ہر قسمی مالی معاونت کرئے 70کی دہائی تک ایک لاہور تعلیمی بورڈ اور ایک ہی پنجاب یونیوسٹی پنجاب بھر میں تھی مگر آج ملک بھر میں 67مختلف یونیورسٹیاں انجیئرنگ اور میڈیکل یونیوسٹیز کے علاوہ کام کر رہی ہیں یہ ایک حقیقت ہے کہ یونیوسٹیاں فروع تعلیم کے لئے اہم مقام رکھتی ہیں یونیوسٹیز کا مقصد صرف ڈگری دینا ہی نہیں بلکہ یہ ادارے تدریس کے ساتھ ساتھ تحقیق اور منفرد نظریات کے فروغ کے لئے بھی کام کرتے ہیں اسی ضمن میں اگر ہم دنیا بھر کی یونیوسٹیز کی درجہ بندی کی طرف دیکھیں تو گزشتہ سال 2014ء میں پوری دنیا کی 351بہترین یونیوسٹیز میں اول نمبر پر کیلے فورنیا یونیوسٹی جبکہ دوئم ہارورڈ اور سوئم نمبر پر آکسفورڈ یو نیوسٹی ہے پاکستان کی کوئی بھی یونیوسٹی اس فہرست میں شامل نہیں ہے ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ملک کی یونیوسٹیوں کی جو درجہ بندی کی ہے اس میں قائد اعظم یونیوسٹی اسلام آباد پہلے پنجاب یونیوسٹی پانچویں اور بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان ساتویں نمبر پر ہے یہ بات انتہائی قابل غورہے کہ پاکستانی کو بھی یونیورسٹی دنیا کی ان یونیوسٹیز میں شامل کیوں نہیں جنہیں بہترین یونیورسٹیز کا اعزاز حاصل ہے اس کی بنیادی وجہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ اعلی تعلیم یافتہ سٹاف کی کمی ہے پاکستان میں پی ایچ ڈی پروفیسرز کی شدید کمی ہے افسوسناک حقیقت تو یہ ہے کہ خود ہائر ایجوکیشن کمیشن کے پاس کوالیفائیڈ سٹاف کی شدید کمی ہے دوسری طرف توجہ طلب بات سرکاری اور نجی تعلیمی ادروں کا فرق ہے سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھائی روائتی انداز میں جاری ہے اساتذہ پروفیسرز لیکچرارز کی بھرتی ہو یا نظم و نسق اس میں میرٹ کے علاوہ سیاسی مداخلت بھی نظر آتی ہے سرکاری تعلیمی اداروں میں بھرتی کے قواعد و ضوابط بہت پرانے اور نا قابل فہم ہیں جبکہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں ریگولر سٹاف کے علاوہ اہل علم سفارتکاروں اعلیٰ بیورو کریٹ عوامی نمائندگان سمیت مختلف اعلیٰ منصب پر فائز رہنے والے لوگوں کو بلاتے ہیں انہیں معقول معاوضہ دیتے ہیں اس طرح ان اداروں کی اس پلاننگ سے ریسرچ اور تحقیق میں کے عمل میں تیزی اور بہتری آتی ہے گورنمنٹ کے وزن 2015ء کے مطابق ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ملک بھر کی تمام پبلک سیکٹر یونیوسٹیز سے ملک کے تمام اضلاع میں نئی یونیوسٹیاں بنانے کے لئے تجاویز طلب کی ہیں کمیشن نے چاروں صوبوں کے چیف منسٹر صاحبان سے بھی اس بارے آراء مانگی ہیں 28جولائی 2015کو ایک تفصیلی مراسلے کے ذریعے استدعا کی جس کا مقصد تمام اضلاع میں بچوں کو بلا امتیاز اعلی تعلیم تک رسائی دینا ہے تاکہ آنے والی نسلیں وسائل کی کمی یا دوسری وجوہات کی بناء پر اعلی تعلیم حاصل کرنے میں ناکام نہ ہو اس ضمن میں یہ تجویز بھی قابل غور لائی گئی ہے کہ نئے کیمپس کھولے جائیں یا قبل ازیں موجود کالجز کو اپ گریڈ کر دیا جائے صوبائی حکومتوں اور وائس چانسلر صاحبان کی جانب سے موصول ہونے والی تجاویز آئندہ کی منصوبہ بندی معاون ثابت ہو گئی پہلے مرحلے میں پلاننگ ہو گئی پھر مرحلہ وار اس پر عمل درآمد ہوگا دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی ایسی پالیسیاں ترتیب دی جاتی رہی ہیں ماضی میں1959ء میں سنگا پور نے آزاد ہوتے ہی سب سے پہلے خواندگی اور فنی تعلیم کی طرف توجہ دی فنی تعلیم کے لئے لوگوں کو دنیا بھر کے فنی اداروں میں داخلے کے لئے بھیجا جو وہاں سے سیکھ کر آئے اور صنعتوں میں کام کرنا شروع کر دیا جس سے لوگوں میں محنت اور لگن کا جذبہ پیدا ہواآج سنگا پور میں بہترین یونیورسٹیاں تعلیمی ادارے ہیں یہ تو ایک مثال تھی ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ ہمارے بعد آزادی حاصل کرنے والے ممالک نے ترقی کی اعلیٰ منازل طے کی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سنگا پور سمیت دوسرے ممالک میں سیاسی پارٹیوں کے لئے کھلا کھاتہ نہیں رکھا گیا ہے جبکہ پاکستان کے الیکشن کمیشن میں 305پارٹیاں رجسٹرڈ ہیں جبکہ کئی پارٹیاں ابھی اکھاڑے میں اترنے کے لئے تیار ہیں
سرکاری تعلیمی اداروں میں گرتا ہوا تعلیمی معیا رکے سبب نجی تعلیمی اداروں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ان نجی تعلیمی اداروں کے سبب بھاری بھر فیسوں کے عوض ڈگریاں تو تقسیم کی جا رہی ہیں مگر تعلیم اور اخلاقیات سے آنے والی نسلیں روزبروز دور ہوتی جارہی ہیں نئی یونیوسٹیز یا تعلیمی اداروں کی بجائے قبل ازیں قائم اداروں میں تعلیم یا فتہ سٹاف بھرتی کیا جائے سیاسی اقرباء پروری اور اساتذہ یونینزکے اثرو رسوخ کو بھی بتدریج کم کر کے سرکاری اداروں میں گرتے ہوئے تعلیمی معیار کو بہتر کیا جا سکتا ہے ۔۔۔۔۔