شیشہ اور آئس کا بڑھتا ہوا نشہ اور ریاستی اداروں کی ذمہ داریاں
تحریر ۔۔۔۔۔ محمد عمر شاکر
نشہ کرنے والے منشیات فروخت کرنے والے اور انکی سرپرستی کرنے والے حضرات کو ہمارے معاشرے میں بری نگاہ سے دیکھا جاتا ہے مگر بدلتے حالات کیساتھ ساتھ جیسے جیسے کرائم و جرائم اور کریمینل نے وقت کیساتھ ساتھ ترقی کی ویسے ویسے ہی منشیات نوشی میں بھی جدت آگئی سوشل میڈیا اور تیز ترین ٹیکنالوجی کے سبب پوری دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے پوری دنیا بھی کریمینل لوگ منظم اور تیز ہوتے ہیں مگر ریاست اور ریاستی ادارے کریمینل لوگوں گرہوں کے طریقہ واردات سے آگاہی حاصل کرتے ہوئے کوشش کرتے ہیں کہ شہریوں کو کریمینل گرہوں کی منفی کاروائیوں سے آگاہ رکھتے ہوئے جزا سزا کا قانون ترتیب دیں
بدلتے حالات تبدیل ہوتی ہوئی عالمی صورت احوال کی طرح پاکستان میں بھی ماضی میں جیسے شراب چرس حقہ سگریٹ نوشی اور پوڈر کے نشے تھے اب انکی جگہ جدید نشوں شیشہ آئس آکسیجن شاٹس پارٹی ڈرگ لے رہے ہیں ہمارے ادارے اور ریاستی قوانین ابھی بھی دیسی ولائتی شراب چرس پوڈر کے نشوں کو ہی منشیات نوشی سمجھ رہیں ہیں جبکہ حالات بدلتے ہوئے کریمینل جدت میں منشیات فروشی بھی اپنے رنگ بدل چکی ہے
شیشہ اور آئس کا نشہ اب لاہور کراچی اسلام آباد جیسے بڑھے شہروں سے نکل کر اب پسماندہ علاقوں میں بھی اپنے پنجے گاڑھ چکا ہے نوجوان جوکہ قبل ازیں بیرون ملک سے آنے والے لوگ ہی مخصوص تعداد میں اپنے ساتھ لاتے اور کچن کیبنٹ میں بیٹھ کر نشہ نوشی کرتے جب وہ جاتے تو یہ منشیات نوشی کا ناسور بھی ختم ہو جاتا اور اسکے اثرات دیر پا نہ ہوتے مگر کرونا کے باعث حالیہ کچھ عرصہ میں مختلف یونیورسٹیز میں زیر تعلیم تھے تواتر سے چھٹیوں کے سبب شیشہ اور آئس کا نشہ چوک اعظم و گردونواح میں بھی بڑھ چکا ہے
منشیات نوشی تو تبدیل ہو گئی مگر منشیات نوشی کی جانب راغب کرنے کا طریقہ تبدیل نہیں ہوا ویسے ہی جیسے سگریٹ نوشی کی جانب راغب کرنے والے افراد نوجوان پہلے اپنی جیب سے نئے شخص کو سگریٹ یا چرس پلاتے ہین ویسے ہی شیشہ اور آئس کا نشہ کرنے والے نوجوان بھی نئے لوگوں کو منشیات نوشی کی طرف راغب کرنے کے لئے اپنی جیب یہ پلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ نشہ نہیں ہے بلکہ اس کے استعمال سے انسانی دماغ چست و چالاک رہتا ہے اور انسان زیادہ محنت کوشش سے کامیابیاں سمیٹ لیتا ہے
جب کوئی بھی نوجوان دو چار دفعہ مال مفت سمجھ کر اس نشہ کو استعمال کرتا ہے تو پھر وہ اسکا عادی ہو جاتا ہے زیادہ نمبرز یا اپ گریڈز کے لئے ذہنی صلاحیت کی بڑھوتری کے لیے جو عمل شروع کیا جاتا ہے وہ ہی عمل اپنے دور رس منفی اثرات چھوڑ جاتا ہے اور وہ نوجوان جس سے والدین رشتہ داروں حلقہ احباب کو کئی حسین توقعات ہوتی ہیں وہ ہی والدین پھر اپنی اولاد کو روزانہ صبح شام کی بنیاد پر جیتا مرتا دیکھتے ہیں اورقابل فخر نوجوان اپنی منفی سر گرمی کے سبب نفرت کی علامت بن جاتاہے
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے مملکت پاکستان میں سائبر کرائم کے قوانین بھی طویل عرصہ کے بعد بنائے گئے سائبر جرائم شروع ہونے سے سائبر کرائم بننے کے دورانیہ میں جو جرائم ہوئے انکی جزا و سزا کا عمل بھی لیٹ ہو جاتا ہے باالکل ایسے ہی شیشہ نوشی یا آئس کے نشہ کے سلسلہ میں بھی کوئی مربوط حکمت عملی نہیں ریاستی طور پر اپنائی جا رہی ہے ابھی تو یہ ناسور چند مخصوص مقامات پر فروخت ہو ترہا ہے مگر آہستہ آہستہ یہ نشہ بھی منظم انداز میں با اثرگروہوں کی پشت پناہی میں فروخت ہو گا جس کے نقصانات نا قابل تلافی ہوں گے ارباب اختیار اور پالیسی میکرز اداروں کو چاہئے کہ سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے پولیس اپنے مخصوص ریسورس اور حساس اداروں کے ذریعہ رپورٹس اکھٹی کر کے ایسا پلان ترتیب دیں کہ چوک اعظم یا اسکے گردونواح یا دیہاتی پسماندہ ایریاز مین جہاں شیشہ یا آئس کا نشہ فروخت ہو رہا ہے وہیں ایسے عناصر جو منشیات فروخت کرتے یا انکی سر براہی کرتے ہیں انکے خلاف بلاا متیاز کاروائی کریں رفاحی سماجی ادارے ایسے سیمینارز تقریبات منوقد کریں جن میں شیشہ آئس آکسیجن شاٹس پارٹی ڈرگ کے خوفناک رزلٹس سے نوجوانوں کو آگاہ کرتے ہوئے ان سے باز و ممنوع رہنے کی ترغیب دی جائے
والدین بھی اپنی اولاد کی حرکنات و سکنات پر نظر رکھتے ہوئے انکے دوستوں کی عادات کا بھی خیال رکھیں مشاہدے مین یہ بات بھی آئی ہے کہ نوجوان تھوڑی تھوڑی رقم اکھٹی کر کے مشترکہ طور پر حقہ خرید لیتے ہیں اور آن لائن لیکچرزکے بہانے ڈرائنگ رومز مین بیٹھ کر منشیات نوشی کرتے ہیں
ماضی میں چرس پوڈر کی فروخت مشہور تھی اب شیشہ اور آئس کی فروخت میں خطر ناک صورت احوال اختیار کر چکی ہے بد بختی تویہ ہے کہ جب کوئی صحافی یا کالم نگار ان حالات کو زیر قلم لاتا ہے تو ہزاروں روپے ماہانہ تنخواہیں لینے والے ملازمین الٹا نشاندہی کرنے والے کو کہتے ہیں کہ آپ بتائیں کون کون کیسے کیسے فروخت اور کون کون انکی سرپرستی کر رہا ہے ماضی میں تو پولیس کو منشیات فروشوں کی جانب سے منتھلیاں ملنی کی خبریں بھی زبان زد عام تھیں
کچھ تو صاحبان کرم ریاستی ملازمین الٹا جا کر منشیات فروشوں منشیات نوشوں کی اخباری کٹنگ یا آڈیو ویڈیو ریکارڈن بھی سنا دیتے ہیں کہ فلاں بندہ آپکے خلاف متحرک ہیں اور پھر کریمینل گروہوں کی جانب سے نشاندہی کرنے والوں کے خلاف منفی کاروائیوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے
ریاستی اداروں علماء کرام قلم کاروں سماجی تنظیموں اور صاحب الرائے افراد کو ماضی کے نشوں سگریٹ چرس پوڈر کیساتھ ساتھ دور جدید کے نشوں جن میں شیشہ آئس آکسیجن شاٹس اور پارٹی ڈرگز ہیں سے نوجوان نسل کو بچانے کے لئے اپنے اپنے مثبت کردار ادا کرنا ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔