umarshakir.com

آگاہی ہی .......زندگی ہے

ڈی پی او لیہ مستقل بنیادوں پر منشیات فروشوں کے خلاف جہاد جاری رکھیں


آانسان کی زندگی انتہائی بے اعتباری ہے۔زندگی میں جو آدمی جتنے بڑے عہدے پر ہوتا ہے اسے اسی عہدے کے لحاظ سے دو قسمی فیصلے کرنا ہوتے ہیں۔ بعض اوقات چند لمحوں کے غلط فیصلے صدا انسانی ضمیر کو جھنجھوڑتے رہتے ہیں اور بعض اوقات چند لمحوں کے فیصلوں سے انسانی ضمیر خوشی سے جھوم اٹھتا ہے اور وہ فیصلے قوموں کے مستقبل میں بہت زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں۔اخباری اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز ڈی پی او لیہ چوہدری محمد سلیم نے بھی ایک ایسا فیصلہ کیا۔ انہوں نے اعلیٰ پولیس آفیسران کی موجودگی میں سختی سے بغیر کسی لیت و لعل لگی لپٹی کے کہا عید الاضحی کے موقع پر اگر ضلع لیہ کے کسی بھی علاقے میں شراب کشید کرنے یا پئے جانے کا واقع رونما ہوا تو متعلقہ سرکل آفیسر ایس ایچ او اور بیٹ آفیسر ذمہ دار ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ عید کے موقع پر شراب اور منشیات کا مکروہ دھندہ کرنے والے متحرک ہوجاتے ہیں اور چند روپوں کی خاطر انسانی جانوں سے کھیلتے ہیں اس لئے تمام متعلقہ آفیسران ایسے عناصر کی سرکوبی کے لئے انکے خلاف سختی سے اپنا کردار ادا کریں تاکہ معصوم انسانی جانوں کو ضائع ہونے سے بچایا جائے۔ ڈی پی او لیہ کے اس حکم پر دو قسم کے پولیس ملازمین میں ردعمل دیکھنے میں آیا۔ پہلے نمبر پر ضمیر فروش پولیس ملازمین جنہوں نے اپنی قیمت اس حکم نامے کی آڑ میں بڑھا دی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لئے مزید حرام کی رقم کا متعلقہ مکروہ دھندہ کرنے والے افراد سے تقاضا شروع کر دیا۔جب کہ دوری قسم کے وہ پولیس ملازمین جو ایماندار تھے ان کے دل میں فکر آخرت تھی اور انہیں یہ یقین ہے کہ وہ حرام اپنے بچوں کو یا دوسرے آفیسران کو دیں گے انہوں روز قیامت اسکی سزا خود بھگتنا ہوگی۔انہوں نے اس حکم نامے کے آنے پر سکھ کا سانس لیا اور مکروہ دھندہ کرنے والوں کو سختی سے منع کر دیا۔ڈی پی او لیہ کے اس حکم سے سابق گورنر پنجاب غلام مصطفی کھر کا دور یاد آجاتا ہے جب صوبہ بھر میں چوریوں اور ڈاکہ زنی کی وارداتوں کا شور انکے کانوں تک پہنچا توانہوں نے ایک حکم جاری کیا کہ جس علاقے میں چوری کی واردات ہوئی متعلقہ ایس ایچ ذمہ دار ہوگا۔بس پھر کیا تھا چوری کی واردات کا کوئی وقوعہ ان کے دورِ گورنری میں نہ ہوا۔ اس طرح افغانستان میں طالبان کی حکومت جب قائم ہوئی تو ملا محمد عمر نے ایک حکم نامہ جاری کیا کہ افغانستان میں افیم یا کسی بھی نشہ آور چیز کی کاشت نہ ہوگی تو آنن فانن وہ باغات جن سے دنیا بھر میں منشیات سمگل ہوتی تھی۔ صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔ بحر کہ ڈی پی او لیہ انتہائی فرض شناس پولیس آفیسر ہیں۔ انہوں نے پہلی میٹنگ میں ہی صحافیوں کو اپنا موبائل نمبردیا اور کہا کہ کوئی بھی مسئلہ ہو تو کوئی بھی مظلوم کسی بھی لمحے مجھ سے رابطہ کر سکتا ہے۔ بلا مبالغہ جب بھی ڈی پی او لیہ کو کال کی گئی تو انہوں نے خود فون اٹھایا جو بھی مسئلہ انہیں بتایا گیا اس پر فوری عمل درآمد ہوا۔ کبھی ایسے نہیں ہوا جس طرح دوسرے آفیسران سائلوں کو دھتکار دیتے ہیں ۔شاید رب العزت کو ان کی یہی ادا پسند ہے کہ ضلع مظفر گڑھ اور راجن پور میں جس دن انہوں نے لیہ میں چارج لیا ان کے ساتھ ہی ڈی پی اوز نے وہاں چارج لیا یہ لیہ کی عوام کی شب و روزخدمت کر رہے ہیں اور وہاں پہ اسی عرصہ میں تقریباً تین تین ڈی پی اوز تبدیل ہوچکے ہیں ۔بحرکہ ہم اخلاقی طور پر اتنے گر چکے ہیں کہ شراب پینا اب ایک فیشن بن چکا ہے اور جو شراب نہیں پیتا اسے مولوی سادہ لوح کہا جاتا ہے بڑے بڑے مذہبی و سیاسی لیڈران کے شراب پینے کے قصے اور کہانیاں زبانِ زدعام ہیں اور اخلاقی گراوٹ کی ایک انتہائی گھٹیا مثال تو یہ تھی کہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ایک دفعہ کہا تھا کہ تھوڑی سی پیتا ہوں تو مفتی محمود علامہ شاہ احمد نورانی اور اس وقت کے دوسرے اکابر علماء اکرام نے زبردست ایک تحریک بھٹو کے خلاف شروع کر دی ۔مگر آج سابق وزیر داخلہ سندھ اور سپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کے خاوند ذوالفقار مرزا صحافیوں کے ساتھ ٹی وی چینلز پر کہتا ہے اور پوری دنیا سن رہی ہے کہ اپنی جیب سے پیسے خرچ کر کے میں دوستوں کو شراب پلاتا ہوں۔مگر مولانا فضل الرحمن اور علامہ شاہ انس نورانی سمیت کسی بھی عالم دین کا ضمیر اْسے نہیں جھنجھوڑا کہ وہ اس بد بخت کے اس بیان پر نوٹس لے۔بلاشبہ شراب تمام بیماریوں کی جڑ ہے ۔ڈی پی او لیہ نے جہاں پولیس آفیسران کو وارننگ دی وہاں پر بہتر ہوتا کہ ڈسٹرکٹ ڈرگ آفیسران کو بھی وارننگ دیتے جو کافی عرصہ سے میڈیکل سٹوروں پر نہیں آئے اور صورتحال یہ ہے کہ اکثر میڈیکل سٹوروں پر انسانی زندگی بچانے کی ادویات کم اور کپیاں اور نشہ آور ادویات اور

ٹیکے زیادہ فروخت ہوتے ہیں۔
ڈی پی او لیہ صاحب اس شراب اور منشیات سے کتنے گھر اجڑگئے۔ہمارا قلم اسے لکھنے سے قاصر ہے۔ریکارڈ گواہ ہے کہ کبھی بھی ہم نے کسی پولیس آفیسر کے حق میں نہیں لکھا ایک صحافی جب خبرلکھنے کے لئے قلم اٹھاتا ہے تو اسے کوئی خبر نہ ملے یا کوئی سیاستدان عوام کو مخاطب کرنے کے لئے جب کھڑا ہوتا ہے تو اس کے دل و دماغ میں کچھ نہ آئے تواس کا نشانہ پولیس ہی ہوتے ہیں۔آپ نے پہلی میٹنگ میں صحافیوں کو کہا تھا کہ میں زبانی دعوے نہیں کرونگابلکہ عملی اقدامات کرونگا ۔شراب فروشوں کے خلاف آپ کا یہ جہاد عید الاضحی پر بھی جاری رکھنا چاہئے ۔جس طرح علامہ پیر غوث محمد ہزاروی نے ذوالفقار علی بھٹو کو جب اس نے قادیانیوں کو کافرقرار دلوایا تھا تو کہا تھا کہ قیامت کے دن اگر تجھے خالق کائنات جہنم میں بھیجے گاتو میں اپنی زندگی بھر کی نیکیاں دے کر خالق کائنات سے سفارش کرونگا کہ وہ تجھے جنت میں بھیج دے۔اسی طرح میرا آپ سے وعدہ ہے یہ کاغذ گواہ ہے کہ آپ ضلع لیہ کو منشیات سے پاک کروادیں۔ تو علامہ غوث محمد ہزاروی نے بھٹو سے وعدہ کیا تھا میرا آپ سے وعدہ ہے۔دعا ہے کہ اللہ رب العزت آپ کی اس مشن میں مدد فرمائے۔ آمین ۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top