umarshakir.com

آگاہی ہی .......زندگی ہے

یشہ وربھکاریوں نے شہریوں کو اذیت میں مبتلا کر دیا ریاستی ادارے خاموش تماشائی

پیشہ وربھکاریوں نے شہریوں کو اذیت میں مبتلا کر دیا ریاستی ادارے خاموش تماشائی
گداگر سٹریٹ کرائمز میں بھی ملوث ہونے لگے
تحریر ۔۔۔۔ محمد عمر شاکر
قیام پاکستان کے ساتھ سے ہی بدلتی حکومتوں اندرونی بیرونی شازشوں کے سبب ریاستی طور پر کوئی ایک جامع پلان ترتیب نہیں دیا جا سکاکہ غریب بیروز گار خاندانوں کو پیروں پر کھڑا کر کے معاشرے میں با عزت مقام حاصل ہوسکے جس کا منفی نتیجہ یہ نکلا کہ متوسط طبقہ باالکل ہی ختم ہو گیا اور مالدار لوگ مالدارسے مالدار ہوتے جا رہے ہیں متوسط طبقہ ختم ہوتا جا رہا ہے اور غریب غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے چوک اعظم جو کہ جنوبی پنجاب کا نو آبادیاتی شہر ہے میں جہاں مملکت پاکستان کے ہر شہر سے مختلف القبائل اور برادریوں کے لوگ رہائش پذیر ہوئے وہیں ہر نسل برادری اور قبیلے کے بھکاری بھی یہاں اور گردونواح میں رہائش پذیر ہو چکے ہیں
بھکاریوں میں بچے خواتین اور نوجوان شامل ہیں بھکاری خواتین بھیک مانگنے کیساتھ ساتھ جسم فروشی کا دہندہ کرنے کیساتھ ساتھ گھروں میں چوری کرنے کی وارداتوں میں ملوث ہیں
شہر میں معصوم بچوں کے ذریعہ بھی بھیک منگوانے کا دہندہ بھی عروج پر ہیں معصوم بچوں بچیوں کی نگرانی انکے بڑے کرتے ہیں ان بچوں بچیوں کی کہانی انتہائی درد ناک ہوتی ہے جو وہ سناتے ہیں ماں بیمار ہے والد فوت ہوگیا گھر میں کئی دنوں سے فاقہ ہے دوائی لینی ہے بھائی یا بہن بیمار ہے اس ضمن میں جب ان بچوں کو کہا جائے کہ آؤ چلتے ہیں آپکے گھرآپکو میڈیسن یا راشن لے دیتے ہیں وہ بچے چند قدم چلتے ہیں پھر بھاگ جاتے ہیں اور انکی سپورٹ کرنے والا آدمی حیرت زدہ ہو کر انکی طرف دیکھتا رہ جاتا ہے
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ بھکاری بچوں کے ساتھ جنسی حراسمنٹ کے متعدد واقعات ہو چکے ہیں ابتدائی طور پر بھیک مانگنے والے بچے جوانی میں پہنچ کر خطر ناک کریمینل بن جاتے ہیں جسکے معاشرے کو خطر ناک نتائج بھگتنا پڑتے ہیں ایسے ہی بچے ملک دشمن عناصر کے آلہ کار بن جاتے ہیں
منشیات نوش مردو خواتین بھی بھیک مانگنے کے عمل میں پیش پیش ہیں منشیات فروخت کرنے والے گروہ منشیات نوشوں کو چوری چکاری کرنے سٹریٹ کرائم میں ملوث ہونے کی بجائے باقاعدہ طور پر بھیک مانگنے کے عمل کی ترغیب دیتے ہیں چوری چکاری کے مال سے پکڑے جانے کا خوف اور مالکان پولیس کا منشیات فروشوں تک رسائی آسان ہو جاتا ہے
بھکاریوں نے بس اڈوں ہسپتال اور مساجد کے باہر ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں
پیشہ ور گداگروں کی وجہ سے مستحق افراد بھی اپنا حق لینے سے محروم رہے جاتے ہیں جس ایسے خاندان جنہیں مالی امداد کی واقعی ضرورت ہوتی ہے انکے چولہے کئی کئی روز تک ٹھنڈے رہتے ہیں انکے بیماروں کو بروقت میڈیسن نہیں ملتی اور انکے بچے بچیاں تعلیم سے محروم رہے جاتے ہیں یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ریاست کی طرف سے دی جانے والی مستحق افراد کو امداد بیت المال زکوۃ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسی سکیموں سے بھی غیر مستحق افراد مستفید ہو جاتے ہیں
جہاں اسلامی تعلیمات مین گدا گری کی ممانعت کی گئی ہے وہیں آئین پاکستان میں بھی بھیک مانگنا جرم قرار دیا گیا ہے لیکن مستقبل قریب میں ایسے کوئی آچار نظر نہیں آتے کہ اس قانون پر عمل داری ہو سکے ریاست کو بھی چاہیے کہ وہ ایسے ادارے جن میں ٹیکنکل تعلیم دی جائے وہ نا صرف شہروں بلکہ قصبوں اور دیہاتوں میں بھی کھولیں جائیں جس معاشرے میں ہنر مند نوجوانوں کی بھرمار ہواور انہیں روز گار کے مواقع ملیں خواتین بھی کشیدہ کاری سلائی کڑاہی کا کام کر کے گھر بیٹھے گداگری کی لعنت سے جان چھڑاتے ہوئے باعزت روز کما سکتی ہیں
چوک اعظم مین بھیک مانگنے والے جوانوں خواتین اور بچوں کے خلاف انتظامیہ کو چاہیے کہ بلا امتیاز کاروائی کی جائے جس سے شہریوں کوپیشہ ور گداگروں سے چھٹکارہ ملنے کیساتھ ساتھ آئین پاکستان کے قانون پر بھی عمل ہو سکے ۔۔۔۔۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top