umarshakir.com

آگاہی ہی .......زندگی ہے

عنوان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چوک اعظم ;252;پولیس عوام بمقابلہ جرائم پیشہ افراد

تحریر ۔ ۔ ۔ محمد عمر شاکر چوک اعظم

چوک اعظم جسے ابتداء میں خونی چوک پھر چوک اعظم اور اب منی کراچی کے نام سے موصوم کیا جاتا ہے کہ تھانہ کو کمائی کے لحاظ سے سونے کی چڑیا کے نام سے جہاں موصوم کیا جاتا ہے وہیں پر یہاں تعینات ہونے والے ایس ایچ او کوضلع بھر کے تمام منتخب عوامی نمائندوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ تھانہ چوک اعظم کی حدود ضلع لیہ کے دونوں قومی اور پانچوں صوبائی حلقوں کو کلی یا جزوی طور پر احاطہ کیے ہوئے ہے حالیہ تعینات ہونے والے ایس ایچ او اعجازبخاری نے پولیس رواءتی اصول کہ معاشرے کے تین طبقات ہیں ۱ ۔ پولیس۲ ۔ عوام۳ ۔ جرائم پیشہ عناصر ان تین طبقات میں جو بھی دو طبقے اکٹھ کر لیں تیسرے طبقے کے لئے مسائل مشکلات پریشانیاں پیدا کر سکتے ہیں کے مصادق تھانہ چوک اعظم کی حدود میں آن والے چکوک کے نمائندہ افراد اور چوک اعظم کی مختلف مذہبی سیاسی سماجی کاروباری تنظیموں کے نمائندہ افراد کے ساتھ مشاورت کرنے اور یہاں ہونے والے جرائم اور مجرموں کے بارے معلومات کے لئے ایک29-06 2013 میٹنگ کا انعقاد کیاعرصہ دراز کے بعد یہ کسی ایس ایچ او نے پہلی میٹنگ کال کی جہاں مختلف نمائندہ لوگ اکٹھے ہوئے اور انکی پولیس کے ساتھ یہ میٹنگ ہوئی ایسا تھانہ جسکی بلڈنگ کا افتتاح آئی جی پنجاب کر کے گیاہو مگر شومئی قسمت کہ ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے بعدبھی اسکا پی ٹی سی ایل نمبر چالو نہ ہو سکا ہو 15 کی سہولت تو میسر ہے مگر نمبر یہ میسر نہ ہے تھانہ چوک اعظم میں نفری کی کمی کا روز اول سے ہی مسئلہ رہا ہے اس وقت ایک محتا ط اندازے کے مطابق تھانہ چوک اعظم کی حدود میں دو لاکھ سے زائد آبادی اور یہاں امن و امان بر قرار رکھنے لوگوں کی جان مال عزت و آبرو کی حفاظت کے لئے 35 پولیس اہلکار تعینات ہیں یوں ایک پولیس اہلکار کے ذمہ 5700 سے زائد افراد کی حفاظت آتی ہے

مقدمات کے انداراج کی بھر مار سے تفشیشی آفیسران کو یاد ہی نہیں کہ انکے پاس کون کون سے مقدمات کی تفشیش ہے اکثر و بیشتر مقدمات کی نامکمل مثلیں عدالت میں پیش کر دی جاتی ہیں پولیس آفیسران اپنی کارگردگی دکھانے کے لئے اشتہاری ملزمان کی ایف آئی آر بک میں گرفتاری شو کر دیتے ہیں ہائی ،شیشن ،انسداد دہشت گردی کورٹس ۔ ڈی آئی جی ڈی پی او ڈی ایس پی آفسز اور گشت ڈیوٹیوں کی اعصاب شکن ڈویٹیاں کرنے والے پویس آفیسران نے مقدمات کی مثلیں لکھنے کے لئے باقاعدہ منشی رکھے ہوئے ہیں جو افسانوی کہانیوں کی طرح مقدمات کی مثلیں لکھتے ہیں جس کو تفشیشی آفیسران پر سو نہیں کر سکتے

منشیات فروشی ،جسم فروشی ،منی سینماگھر سنوکر،بلیڈ کلب ،نا جائز اسلحہ کی خریدوفروخت ،زمینوں پر ناجائز قبضے،چوری ڈکیتی کی وارداتیں ،ناجائز تجاوزات ،درخت چوری شادیوں کی آڑ میں لوٹ مار،جعلی پیری مریدی سے سادہ لوح افراد کو لوٹنا الغرض جتنے بھی جرائم معاشرے میں پنپتے ہیں جس سے بلاشبہ ہمارا معاشرہ روز بروز اخلاقی قدروں کی گراوٹوں میں جا رہا ہے یہ سب جرائم دو وجہ سے ہوتے ہیں جن میں پہلی وجہ نام نہاد شرفاء کی چند ٹکوں یا ووٹوں کی لالچ یا پولیس میں موجود رشوت خور کالی بھڑیں وگرنہ جر م ہو ہی نہیں سکتا میرے جیسے قلم کاروں کو معاشرے کے ایسے ناسوروں کا علم ہوتا ہے مگر جان کی امان پاتے ہوئے یا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کی وجہ سے خاموش رہتے ہیں بحرحال اس میٹنگ سے عام عوام اور باشعور طبقہ تک ایک میسج گیا کہ اب تھانہ چوک اعظم میں ٹاءوٹ مافیاء جسے جدید اصطلاح میں پولیس معاون کہاجاتا ہے کی بجائے عوام کے جائز مسائل ان کی آراء سے حل ہونگے پولیس اور عوام کا ایکا جرائم پیشہ عناصر کو چوک اعظم سے ہجرت کرنے پر مجبور کر دے گا بلاشبہ یہ سب کچھ ایک فرض شناش ایماندار پولیس آفیسر اسی وقت کر سکتا ہے جب اسے اسکے آفیسران بالا کا مکمل تعاون حاصل ہو اور اس ضمن میں ڈی پی او لیہ غازی صلاح الدین اور ڈی ایس پی سرکل چوبارہ عزیزاللہ خان کے بھی اہلیان چوک اعظم مشکور ہیں بلا مبالغہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پہلی دفعہ ڈی ایس پی سرکل چوبارہ کا آفس عوام کی نظروں میں آیا ہے کہ تھانہ اور ڈی پی او آفس کے درمیان بھی کوئی آفیسر ہے جس سے عوام کا نا صرف قیمتی وقت بلکہ سرمایہ بھی بچتا ہے

چوک اعظم میں عرصہ دراز سے مصالحتی کمیٹی نہ ہے جس کی وجہ سے معمولی مسائل اور لڑائی جھگڑوں میں مقامی طور پر صلح صفائی نہ ہونے کے سبب جہاں مقدمات کے اندراج میں اضافہ ہوتا ہے وہیں پر معمولی لڑائی جھگڑوں سے شروع ہونے والی مقدمہ بازی خاندانی دشمنیوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں اس لئے مصالحتی کمیٹی یا سٹیزن کمیونٹی کا قیام فوری ضروری ہے

جنرل بس اسٹینڈ چالو ہونے اور چوک اعظم کے مضافاتی اڈوں اور چکوک میں رکشے چلنے سے انگنت رکشہ سٹینڈ بن گئے ہیں جن سے جرائم پیشہ گروہوں کے آلہ کارغیرقانونی سٹینڈ فیس وصول کی جارہی ہے آنے والے وقت میں یہ گنگز شہر کے لئے انتہائی خطر ناک ہو سکتے ہیں شہر کے تمام رکشہ سٹینڈ تحصیل کونسل کی تحویل میں لیا جانا بھی ضروری ہے

عرصہ دراز کے بعد پولیس کے کسی آفیسر نے عوام کا اعتماد بحال کرنے کا جو خواب دیکھا اس میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں یہ تو آنے والاو قت ہی بہتردکھائے گا مگر جس حوصلے عزم لہجے میں ایس ایچ او اعجاز بخاری نے نمائندہ افراد سے گفتگو کی اور ان سے تعاون طلب کیا وہ قابل ستائس ہے

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top