لاقائی صحافیوں کو در پیش سنگین مسائل
تحریر ۔ ۔ ۔ ۔ محمد عمر شاکر
ریاست کے چار ستون ہوتے ہیں جن میں عدلیہ منتظمہ (انتظامیہ )مقننہ(قانون ساز) اور صحافت ہیں ابتدائی تین ستونوں کو تو ریاست مکمل پروٹوکول دیتی ہے مگر دوسرے ممالک کا تو معلوم نہیں مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں چوتھے ریاستی ستون کو نہ صرف ریاست کی طرف سے بجائے پروٹوکول کے طعن و تشیع اورپابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ سیاسی مذہبی جماعتوں سرمایہ داروں جاگیر داروں کی طرف سے بھی جب انکی منفی ملک مخالف یا معاشرہ کی بے راہ روی فرقہ بندی یا شدت پسندی پر کوئی خبر شاءع یا نشر ہوتی ہیں تو اس پاداش میں پاکستان میں کئی صحافیوں کو شہید کئی صحافیوں کو اغواء کئی صحافیوں کو قید و بند کی صعوبتوں کا بھی سامنا کرنا پڑا وفاقی دارلحکومت صوبائی دارلحکومتوں میں شعبہ صحافت میں ڈیوٹی سر انجام دینے والے صحافیوں کو انکے اداروں کی طرف سے جہاں تنخواہیں رہائش پٹرول اور موبائل بل ریاست اور ریاستی اداروں کی طرف سے جرنلسٹ کالونی میں رہائشی پلاٹ سمیت متعدد مرعات بھی مل جاتیں ہیں مگرعلاقائی صحافیوں کو اس مشکل ترین دور میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کسی بھی قومی اخبار میں آٹھ دس صفحوں کا پیٹ بھرنے والے علاقائی رپوٹرز جو کہ بلا مبالغہ شب و روز بغیر کسی اعزازیہ کے ڈیوٹی سر انجام دیتے ہیں شدید ترین مسائل کا شکار ہوتے ہیں کسی بھی قومی اخبار یا نیوز چینل کی نمائندگی لینے کے لیے سب سے پہلے سیکورٹی کے نام پر بیس ہزار سے ایک لاکھ روپے تک سیکورٹی کے نام وصول کیے جاتے ہیں جو کہ تقریبن نا قابل واپسی ہی ہوتے ہیں بعد آزاں سالانہ سپلیمنٹ جو کہ سالانہ پچاس ہزار سے ڈیڑھ لاکھ روپے ہوتا ہے بھی اخبار کو دینا ہوتا ٹی وی چینلز کے نمائندگان کو بھی ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتاہے یوم آزادی کے موقع پر پوری قوم آزادی کی خوشیاں منا رہی ہوتی ہے مگر نمائندہ اپنے اخبار کے خصوصی ایڈیشن کے لیے اشتہار تلاش کرنے کی ذہنی اذیت میں ہوتا ہے عید الفطر اوع عید الاضحی کے مواقع پر بھی جہاں شہری عید کے لئے اپنی اور اپنے خاندان کےلئے خریداری کر رہے ہوتے ہیں وہیں علاقائی رپورٹرز اخبارات کے عید ایڈیشن کے لیے اشتہارات ڈھونڈ رہا ہوتا ہے عید میلاد النبی ﷺربیع الاول کے موقع پر بھی ایک طرف میلاد کی محفلیں اور جلوس منعقد ہو رہے ہوتے ہیں جبکہ اخباری نمائندہ ربیع الاول کے ایڈیشن کے لیے اشتہارات ڈھونڈ رہا ہوتا ہے یوم دفاع یوم تکبیر اور تئیس مارچ سمیت مختلف اہم مواقع پر عوام الناس ہزاروں نہیں لاکھوں روپے خرچ کر دیتے ہیں مگر کسی بھی اخباری نمائندہ کو اشتہار دینے کے لیے متعدد چکر لگوائے جاتے ہیں کبھی کہا جاتا ہے اشتہار شاءع کر دیں بعد میں پیسے لے لینا جوکہ بعد میں دیے نہیں جاتے یا چند سو روپے بھی تھوڑے تھوڑے کر کے تحقیرانہ انداز میں دیے جاتے ہیں
دور حاضر میں مذہبی سیاسی جماعتوں افراد کریمینل افراد گروہوں کرپٹ سرکاری آفیسران ملازمین نے اپنے اپنے زیر اثر افراد کو شعبہ صحافت سے منسلک کر دیا ہے
کسی بھی مسجد کے امام کا نماز پڑھانے بچوں کو پڑھانے جنازہ نکاح پڑھانے وکیل کا عدالتی ٹائم ٹیچر کا سکول کالج ڈاکٹر کا ہسپتال کا ٹائم مخصوص دورانیہ کا ہوتا ہے مگر شعبہ صحافت سے منسلک علاقائی صحافی کا بلا معاوضہ ڈیوٹی ٹائم یکساں طور پر چوبیس گھنٹے ہوتا ہے دن ہو یا رات کہیں کوئی ایکسڈنٹ ہو گیا چوری یا ڈکیتی ہو گئی ٹمبر مافیا سرکاری لکڑ کاٹ رہا ہے ہسپتال میں مریضوں ادویات کا مسئلہ ہے محکمہ انہار یا زراعت میں کسانوں کو کوئی مسئلہ درپیش ہے کہیں نا جائز اسلحہ پکڑا گیا الغرض کوئی بھی ورکر صحافی ہمہ وقت سرحد پر کھڑے فوجی کی طرح چوکس چوکنا رہتا ہے مگر اس ساری ڈیوٹی کے بر عکس گھر کا چولہا جلانے اپنے اور اپنے خاندان کے نان نفقہ کے لیے خوراک کپڑے ادویات کے لیے کوئی سہولت میسر نہیں دور حاضر میں ڈاکٹر وکیل عالم دین الغرض ہر شخص اپنی خدمات کا معاوضہ لے رہا ہے مگر علاقائی صحافی ایک واحد طبقہ ہے جو کہ خدائی خدمت گار بن کر اپنی ذات اور اپنے گھرانے کے مسائل پر آنکھیں بند کر کے اسلامی فلاحی ریاست کے ارباب اختیار و اقتدار اور پالیسی میکرز کی جانب سہانے دنوں کے حسین خواب دیکھتا ہے
ظلم در ظلم تو یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ سیکورٹی مد کی وصولی کی لالچ میں میڈیا مالکان انچارج نمائندگان کسی بھی شخص کو نمائندہ بناتے ہوئے اس کے بیک گراونڈ یا سرگرمیوں کو نہیں دیکھتے کریمینل افراد منشیات فروشی قبضہ مافیا ٹمبر مافیا جسم فروشی کے اڈوں جعلی کرنسی سود خوری سے منسلک افراد چند ہزار روپے دیکر پریس کارڈ لا کر نہ صرف شرفا بلکہ ایماندار آفیسران ملازمین کی پگڑیاں اچھالتے ہیں ایسے عناصر کی وجہ شعبہ صحافت سے منسلک افرادپر طعن و تشنیع کرنے والے افرادکو انگلیاں اٹھانے کا موقع مل جاتا ہے
جاگیرداروں سرمایہ داروں چند ایک انتظامیہ آفیسران اور سیاسی نمائندوں کی جانب سے بھی غیر محسوس انداز میں ایسے حالات بنا دیے جاتے ہیں کہ علاقائی رپورٹرز آپس میں بھی بے مقصدی لڑائی میں الجھتے رہتے ہیں جس سے انتظامیہ کریمینل لوگوں اور سیاسیوں کو کھل کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے
وفاقی دارلحکومت یا صوبائی دارالحکومت میں شعبہ صحافت سے منسلک افراد کیساتھ اگر خدانخواستہ کوئی نا خوشگوار واقع ہو جائے تو مملکت پاکستان کے قریہ قریہ گاوں گاوں میں علاقائی رپورٹرز صدائے اجتجاج بلند کر دیتے ہیں مگر اگر کسی علاقائی رپوٹر کیساتھ اگر کوئی مسئلہ بن جائے تو نہ صرف میڈیا مالکان بلکہ نامور صحافی بھی اس طرف توجہ نہیں دیتے علاقائی رپورٹرز ہمیشہ کی سیکورٹی رسک پر ہوتے ہیں فراءض کی انجام دہی کی پاداش میں کئی علاقائی رپورٹر قتل کئی ایک پر جھوٹے مقدمات اور کئی ایک کی فیملیز کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا گیا الغرض متعدد بار علاقائی صحافیوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑا مگر کبھی انکی بات سنئیر نامور صحافیوں نے ارباب اختیار اور اقتدار کے ایوانوں تک نھیں بین الاقوامی طور پر بھی صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی این جی اوز نے بھی ہمیشہ بڑے شہروں کے صحافیوں کے ہی مسائل کو مسائل سمجھا اور علاقائی صحافیوں کیساتھ سوتیلوں جیسا سلوک کیا گیا تلخ حقیقت تویہ ہے کہ ماضی میں جب خبریں ہاتھ سے لکھ کر پوسٹ کی جاتی تھی پھر فکس کر کے خبریں بھیجنے کا دور آیا اور اب ای میل واٹس ایپ سمیت متعدد جدید طریقہ سے خبریں بھجنے کا دور آیا توصحافی کو اپنی جیب سے ہی نیوز بھجنے کا خرچہ برداشت کرنا پڑتا ہے سال ہا سال تک کسی بھی اخبار یا میڈیا گروپ کیساتھ رضا کارانہ ڈیوٹی سر انجام دینے والے نیوز ایجنٹ یا صحافی کی وفات پر مالکان تو درکنار کبھی سنئیر پوسٹوں پر بیٹھے نامور افراد بھی نہیں آتے صحافیوں کے حقوق کے لیے جدو جہد کرنے والی تنظیموں کا بھی علاقائی رپورٹرز کے مسائل دور افتادہ پسماندہ علاقوں سے جاکر وفاقی یا صوبائی دارلحکومتوں میں جاکر شعبہ صحافت سے منسلک ہونے والے صحافی بھی بڑے شہر میں جاکر اسکی رنگ رنگیوں میں منتخب عوامی نمائندوں کی طرح کھو جاتے ہیں اور کبھی علاقائی صحافیوں کے مسائل پر آواز بلند نہیں کرتے صحافتی تنظیموں اور نامور صحافیوں کو بھی چاہیے کہ وہ علاقائی رپورٹرز کے مسائل کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے اس طرف توجہ دیں
قیام پاکستان سے لیکر تا دم تحریر بلاشبہ صحافیوں کو ایسے ہی سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اب جبکہ موجودہ گورنمنٹ نیا پاکستان کا نعرہ لگا کر مختلف اداروں میں قانون سازی کر رہی ہے تو علاقائی رپورٹرز کے لیے قانون سا