دہشت گردی کے عفرےت کا مل کر مقابلہ کرنا ہوگا
کراچی کے علاقے ڈیفنس سوساءٹی اور ماری پور میں پاک بحریہ کی دو بسوں پر حملے کی وارداتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کی سرگرمیوں میں مزید وسعت آتی جارہی ہے ۔ منگل کی صبح تقرےباً ایک ہی وقت دو مقامات پر کئے گئے دھماکوں کے نتےجے میں ایک لیڈی داکٹر سمیت چار اہلکار شہید اور 56زخمی ہوگئے ۔ عملے کو لے جانے والی دونوں بسیں مکمل طور پر تباہ ہوگئیں ۔ پھٹنے والے دونوں بم 4سے5کلو گرام وزن کے تھے جن میں بارودی مواد کے علاوہ نٹ اور بولٹ بھی شامل تھے جب کے تلاشی کے دوران ملنے والا تیسرا بم 10کلو گرام وزن کا تھا ۔ وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کے مطابق منگل کی کارروائی سے دہشت گردوں کے طریقہ واردات میں تبدیلی کا بھی پتہ چلتا ہے ۔ انہوں نے جو بم دھماکے کئے ان میں دو طرح کے ڈیوائسز استعمال کئے گئے تھے تا کہ زیادہ سے زیادہ نقصان ہو ۔ دھماکوں کی منصوبہ بندی کرنے والے غالباً پو لیس اور میڈیا کے ماری پور میں جائے وقوعہ پر پہنچنے کے بعد ایک اور دھماکہ کرنا چاہتے تھے جسے بم ڈسپوزل اسکوارڈ نے نا کام بنا دیا ۔ واردات کے بعد خود کو طالبان کا ترجمان قرار دینے والے جس شخص نے اس کی ذمہ داری قبول کی، اس نے اس مقصد کے لئے غیر ملکی خبر ایجنسی سے ٹیلیفونی رابطے کو ہی ضروری سمجھا ۔ تاہم تفتےشی اداروں کو حالات کا درست طور پر تجزیہ کرنے کے لئے مغرب کے ان انکشافات کو ملحوظ رکھنا ہوگا جن کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیاں کرنے اور ان کی ذمہ داری قبول کرنے کے لئے الگ الگ گروپ تعےنات ہیں ۔ کیونکہ جرائم میں ملوث عناصر کی جب تک درست طور پر نشاندہی نہیں ہوگی اور ان کے نےٹ ورک اور طریقہ کار کو پوری طرح سمجھا نہیں جائے گا، انہیں کیفر کردار تک پہنچانے میں پوری طرح کامیابی حاصل نہیں ہوگی ۔
اس وقت وطن عزیز کو دہشت گردی کی صورت میں جس مسئلے کا سامنا ہے اس سے نمٹنے کے لئے بہت ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ ساتھ ایک ایک کڑی کا جائزہ لےنا اور سازشوں کے تمام امکانات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے ۔ اس کی اہمےت وکی لیکس کی جانب سے گوانتا موبے قیدیوں سے متعلق جاری کی گئی دستاویزات کی وجہ سے اور بھی بڑھ جاتی ہے ۔ جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2002ء میں کراچی کے دوگرجا گھروں اور ایک فائیو سٹار ہوٹل میں بم دھماکوں کا ملزم عادل ہادی برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس کا ایجنٹ تھا ۔ پاکستان میں 2003ء میں گرفتار کئے جانے والے اس الجزائری باشندے کے فائل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کینیڈا کی خفیہ ایجنسی کے لئے بھی مخبری کرتا تھا ۔ پچھلے مہینے امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری اور رہائی کے واقعے سے پاکستانی عوام کے ان شکوک کی بڑی حد تک تصدیق ہوگئی کہ وطن عزیز میں انتشار، افراتفری اور بدنظمی پھیلانے کے لئے مقامی اور غےرملکی ایجنٹ سرگرم عمل ہیں ۔ وکی لیکس کے انکشاف سے ظاہر ہوتا ہے کہ عادل ہادی جیسے غےر ملکی ایجنٹ اقلیتوں میں بے چےنی پھےلانے کے مشن پر مامور تھے جبکہ فرقہ وارانہ منافرت اور مختلف علاقوں میں دہشت گردی پھیلانے کے حوالے سے غےر ملکی قوتوں کے کردار کے شواہد بار بار سامنے آتے رہے ہیں ۔ سوات اور فاٹا میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے بعض عسکرےت پسندوں کی لاشوں سے ان کے غےر مسلم ہونے کا ثبوت ملتارہا ہے ۔ جبکہ بلوچستان کے ایک مہاجر کیمپ سے کئی برس قبل افغانستان سے رات کی تاریکی میں آنے والی کئی اہم شخصےات گرفتار ہوچکی ہیں ۔ ریمنڈ ڈیوس والے واقعے سے امریکی خفیہ ایجنسی کا کردار پوری طرح بے نقاب ہونے کے بعد ایک جانب ڈرون حملوں میں تےزی آئی ہے تو دوسری طرف دہشت گردی کے واقعات نئی نئی جہتوں کے ساتھ رونما ہورہے ہیں ۔ اس معاملے کا تےسرا پہلو پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی قومی مفادات کی نگہبانی پر مستعدی سے کاءف قوتوں کی اس ادارے کے خلاف مہم میں تیزی آنا ہے ۔ امریکی کانگریس کی مجلس قائمہ میں پیش کی گئی وہاءٹ ہاءوس کی رپورٹ میں طالبان عسکرےت پسندوں کے خلاف کوئی واضح لاءحہ عمل نہ ہونے کی بات اور ایڈمرل مولن کے بےان میں آئی ایس آئی کے بعض عناصر کے حقانی گروپ سے تعلقات کے الزامات اس سلسلے کی کڑی ہیں ۔ اسی کے ساتھ مغربی میڈیا کے ذرےعے یہ خبر پھیلائی گئی کہ گوانتا موبے کے حکام آئی ایس آئی کو دہشت گرد یا دہشت گردوں کو مدد دےنے والی تنظیم سمجھتے ہیں ۔ پاکستانی فوج کے اعلیٰ ترین رابطے کے ادارے جوائنٹ چےفس آف اسٹاف کمیٹی نے منگل کے روز اپنے اجلاس میں شائستگی کے ساتھ بالواسطہ طور پر ان باتوں کی تردید کی ہے ۔ اجلاس کے بعد جاری ہونے والے بےان کے مطابق کمیٹی کے چےئرمین نے دہشت گردی کے خطرے سے نمتنے کے لئے آپریشنل تےاری اور جامع حکمت عملی پر مکمل اطمےنان کا اظہار کیا ہے ۔
فاٹا میں بڑھتے ہوئے ڈرون حملے اور دیگر علاقوں میں رونما ہونے والے بم دھماکے، کراچی میں قتل و غارت گری اور دوسرے ملک دشمن واقعات کو صحےح تناظر میں دیکھنے کے ساتھ ساتھ سکیورٹی انتظامات کا ازسر نوجائزہ لےنے کی ضرورت بڑھ گئی ہے ۔ ملک اس وقت جن غےر معمولی حالات سے دوچار ہے ، ان میں ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی ، سماجی ،مذہبی اور دیگر حلقے مل جل کر کام کریں ۔ یہ وقت الزام تراشیوں کی بجائے ملک کی سلامتی اور وقار کے لئے سرجوڑ کر بےٹھنے کا ہے ۔ اس لئے پارلیمنٹ کا ایک توسیعی اجلاس بلاکر یا کل جماعتی کانفرنس طلب کرکے حالات و واقعات کے تناظر میں اس بات کا جائزہ لیا جانا چاہئے کہ ملک کو درپیش سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل کوکس طرح حل کیا جاسکتا ہے ۔ معاملات کی نزاکت اس بات کی متقاضی ہے کہ پوری قوم دہشت گردی کے چیلنج اور ملک دشمن قوتوں کی سازش ناکام بنانے کے لئے منظم ہوکر کام کرے ۔ یہ وقت نفاق کا نہیں ، اتفاق و اتحاد کا ہے ۔ اتحاد و اتفاق کی بدولت ہی ہم نے یہ ملک حاصل کیا تھا اور اسی کی بدولت اس کو بحرانوں سے نکال کر خوشحالی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے ۔
