عنوان ۔ ۔ ۔ قلم کا زخمی سپاہی
تحریر محمد عمر شاکر جنرل سیکر ٹری پریس کلب چوک اعظم
03136522265 mumarshakir@gmail;46;com
ریاست کے چوتھے ستون کے سپاہیوں کے پاس انکا ہتھیار قلم ہوتا ہے ایسا ملک جس میں کرپشن کوئی جرم کی حثیت نہ رکھتا ہوا جہان اقرباپروری کی کو ئی انتہا نہ ہو جس اسلامی ملک میں حج کا نام پر حاجیوں کو لوٹا جائے جس اسلامی ملک کی وزارت مذہبی امور پر ریاست کے باسیوں کو اتنا بھی اعتماد نہ ہو کہ وہاں ایک فیصد سے کم لوگ ریاست کو مختلف ذراءع سے زکوۃ جمع کراتے ہوں اس ملک میں راست کے چوتھے ستون کے سٹریکچر کی حفاظت کا ریاست کے پاس کوئی اسباب نہ ہوں تو قلم کے وہ سپاہی اپنی اپنے خاندان اہل و عیال کی زندگیاں خطرے میں ڈال کر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بسنے والے پاکستانیوں کے روشن کل کے لیے اپنا آج خطرے میں ڈال رہے ہیں کراچی جسے روشنیوں کا شہر کہا جاتا ہے جو بین الاقوامی حثیت رکھنے والا شہر ہے جس شہر میں پھولوں کی خوشبو کی بجائے فضاء میں بارود کی بدبو آتی ہے جس شہر میں بسنے والا ہر انسان اپنے سائے سے بھی ڈرتا ہے جس شہر میں پولیس برائے نام اور رینجر یا آرمی کا کنٹرول ہو اس شہر قائد میں ٍمعروف دانشور اور نامور قلمکار پروفیسر وارث میر کے لخت جگر معروف صحافی ٹی وی اینکر امن کی آشا کے علمبردار حامد میر پر 19اپریل کی شام جب وہ کراچی ائیر پورٹ سے اپنے دفتر جارہے تھے پر قاتلانہ حملہ ہوا خالق کائنات کا شکر ہے کہ حامد میر اس جان لیوا قاتلانہ حملہ میں محفوظ رہے ان کو تین گولیاں لگیں ہسپتال میں انکا تین گھنٹے سے زائد آپریشن ہوا یہ خبر چند لمحوں میں پوری دنیا میں پھیل گئی شائد یہ دعاووں کا اثر تھا کہ مارنے والوں کو منہ کی کھانی پڑی اور بچانے والے نے اس بہادر سپوت کو بچا لیا آپریشن کامیاب رہا اور حامد میر بچ گیا روز بروز اسکی حالت سنبھل رہی ہے
حامد میر ایک مظبوط اعصاب کا مالک اور اسکی رگوں میں محب وطن قلمکار کاخون دوڑ رہا ہے جس کے نہ صرف اپنے بلکے اس شاگردوں کے بھی ان گنت شاگرد مختلف اداروں میں صحافتی سر گرمیاں ادا کر رہیں ہیں
حامد میر پر قا تلانہ حملہ کس نے کیا ;238;
کیوں کیا ;238;
کس کے کہنے پر کیا;238;
یہ شازش کب بے نقاب ہو گئی ;238;
اس کے لیے کتنا عرصہ لگے گا;238;
مگر قلم کے اس سپاہی کے زخمی ہونے سے اس کے زمین پر گرنے والے خون سے ایک صحافتی انقلاب کے ابتداء کی نوید ہے
جب کسی پر قاتلانہ حملہ ہو تا ہے اس پر کیا بیتتی ہے اسے میں خود بھگت چکا ہوں میرے اوپر کوءٹہ میں ملازمت کے دوران جب میں اپنے ساتھی کولیگ محمد ندیم کے ہمراہ صوبہ بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ کے سنگلاخ پہاڑی رستے شیلا باغ خوجک ٹاپ پر ڈاکووں نے فائرنگ کی تو ہمارے ڈرائیور محمد طاہر خان جو کہ چمن کا رہائشی تھا نے کمال بہادری سے ڈبل ڈور ڈالے کو شدید فائرنگ سے نکالتے ہوئے چمن پہنچایا اس سفرع کے دوران کیا کیا ہم پر گزری کیسے کیسے خیالات ذہن میں آئے کئی سال گزر جانے کے بعد اب جب بھی وہ لمحات سامنے آتے ہیں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں
حامد میر اور اس کا خاندان کب تک اس خوف ڈر کی کیفیت میں رہے گئے ;238;
جنگ جیو کراچی کے کارکن ابھی تک ولی بابر خان کا صدمہ نہ بھول پائے ہو نگے کہ حامد میر پر قا تلانہ حملہ کی اعصاب شکن ناقابل بیان خبر سننے کو ملی
حامد میر پر قاتلانہ حملہ ہو نے کے بعد ملک بھر میں صحافتی تنظیموں کے ساتھ ساتھ سول سو سا ءٹی عوامی سماجی مذہبی تنظی میں سراپا اجتجاج ہیں اور حملہ آوروں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کر رہے ہیں جس ملک میں منتخب وزارائے اعظم کے قاتلوں کو گرفتار کرنا تو درکنار پس پردہ محرکات کا بھی قوم کوعرصہ دراز گزر جانے کے بعد بتایا نہ جا سکا ہو وہاں حامد میر پر حملہ کرنے والوں کے بارے میں شائد کئی آنے والی نسلوں تک کو پتہ نہ چلے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
حامد میر جیسے بے شمار قلم کے سپاہی اپنا آج مملکت پاکستان میں بسنے والے پاکستانیوں کے روشن کل کے لئے قربان کر رہے ہیں
بقول شاعر
ہم کو تو آرزو ہی رہی زمانے پر راج کرنے کی
اور وقت نے پھر سے فرعون کو سلطان بنادیا