umarshakir.com

آگاہی ہی .......زندگی ہے

عنوان ہم سب کا صحافی

عنوان ہم سب کا صحافی

تحریر محمد عمر شاکر جنرل سیکرٹری پریس کلب چوک اعظم

جرنلسٹ اور جج قوم قبیلہ نظریات کی حدود و قیود سے بالا تر ہو کر اپنے فراءض منصبی ادا کرتے ہیں جج اور جرنلسٹ پر معاشرے کے تمام طبقات اعتماد کر کے اپنی مدعا بیان کرتے ہیں جج کے سامنے قاتل اور مقتول کے ورثا حکومت اور اپوزیشن جماعتیں غرض معاشرے کے تمام طبقات انصاف لینے کے لئے پر اعتماد ہو کر جاتے ہیں اسی طرح جرنلسٹ کے سامنے بھی معاشرے کے تمام طبقات کے افراد اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کے لیے پر اعتماد ہو کر جاتے ہیں معاشرے کے ان دونوں طبقات کی اپنی کوئی پسند نا پسند نہیں ہوتی ان دونوں کے ہاتھوں میں قلم ہو تا ہے یہ دونوں اپنی حدود و قیود کے اندر رہے کر فریقین کے دلائل سن کر سامنے آنے والے حقائق کی روشنی میں

لکھتے اور بیان کرتے ہیں

ججز اور جرنلسٹ کو ریاستی جبر سمیت بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان دونوں سے جہاں ایک طرف ریاست اور ریاستی ادارے ناراض اور نیچا دکھانے کے لئے کو شاں رہتے ہیں وہیں پر دوسری طرف ریاست مخالف تنظی میں بھی ان کے لئے مسائل پیدا کرنے کے لئے ہماں وقت کو شاں رہتی ہیں

شاطر اور عیار لوگ ہمیشہ ان دونوں طبقات کے لوگوں کے درمیان آپس میں اختلافات ڈلوانے کے لیے کو شاں رہتے ہیں ایک معززجج کوئی فیصلہ کرتا ہے اپیل کر کے اس کے متبادل فیصلہ کرالیا جا تا ہے ایک صحافی کوئی خبر لگاتا ہے اپنے پروگرام میں کوئی سٹوری بیان کرتا ہے دوسرے صحافی سے اس خبر کی تردید چھپوا لی جاتی ہے یا ٹی وی پر اس سٹوری کے متبادل بیان کرا لی جاتی ہے

شاطر اور عیار لوگوں کی دھونس دھمکیوں سے ڈر کر کئی کمزور دل لوگ گوشہ نشینی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کئی نڈر بہادر لوگ اپنے فراءض ادا کرتے کرتے ان کا نشانہ بن جاتے ہیں بحرحال سابق چیف جسٹس افتخار چو ہدری کی ایک آمر کے سامنے ناں سے جوڈیشلی کے اندر نظریہ ضرورت دفن ہو گیا اور آزاد عدلیہ قیام پاکستان کے بعد نئے چہرے سے سامنے آئی ہے

گزشتہ روز معروف کالم نگاروں جاوید چو ہدری اور روف کلاسرہ کے کالم پڑھ رہا تھا

جاوید چوہدری کو صحافت کی دنیا میں نڈر بیباک قسم کا صحافی گنا جاتا ہے مگر انہوں نے حقائق کو جس انداز میں پس پشت ڈالا میرے جیسا ایک صوبائی دارلحکومت ضلعی مقام تحصیل ہیڈ کواٹر میں نہیں بلکہ ایک پسماندہ قصبے کے اندر رہنے والا علاقائی صحافی بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے

حامد میر پر قا تلانہ حملہ کس نے کیا ;238;

کس کے کہنے پر کیا ;238;

غیر ریاستی عناصر غیر ملکی عناصر نے کرایا یا اپنوں کی کوئی شازش تھی یہ تو وقت بتائے گا ;238;

کوئی خود بتا دے گا تو اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کر جائے گا وگرنہ مسلمان ہونے کے ناطے قرآنی آیت کریمہ کی روشنی میں روز قیامت خالق کائنات کی عدالت سب کے منہ بند ہو نگے اور جسمانی اعضاء گواہی دیں گئے پر ہمارا ایمان ہے

جاوید چوہدری صاحب اپنے کالم میں رقم طراز ہیں جس کا عنوان تیرا صحافی میرا صحافی میں خیال میں کوئی کسی کا صحافی نہیں ہوتا

صحافی سب کا صحافی ہو تا ہے

جو آدمی صدمے میں ہوتا ہے اس پر جو گزرتی ہے وہی جا نتا ہے ساری زندگی صدمے کی حالت میں دوسروں کو صبر صبر کی تلقین کرنے والوں پر جب کوئی صدمہ آزمائش آتی ہے تو وہ اپنے ہو ش و حواس کھو بیٹھتا ہے اگر حامد میر کے بھائی یا ادرہ جنگ نے بھی حامد پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے بعد ایسا کچھ کہہ دیا تو وہ غصہ یا حالت غم کے لمحات میں کہے جانے والے الفاظ ہیں

جاوید چوہدری صاحب مزید لکھتے ہیں جیو جنگ نے کبھی دوسرے صحافیوں پر ہونے والے تشدد یا حملہ کو کبھی کوریج نہ دی ہے اس بارے میری معلومات زیادہ تونہیں مگر حال ہی میں روز نامہ نئی بات کے سنئیر رپوٹر علی شیر گلشن کو سنگین نتاءج غیر ملکی ایجنٹ پرویز مشرف کے وکیل احمد رضاء قصوری نے کہا تو حامد میر نے اپنے پروگرام کپیٹل ٹاک میں علی شیر کو مدعو کیا اس پروگرام میں علی شیر صاحب آئے اور لائیو کوریج میں انہوں نے پوری دنیا کو واقعہ سے آگا ہ کیا اس پروگرام میں احمد رضاء قصوری کو بھی بلایا گیا مگر وہ نہ آئے شائد ایسی مثالیں اور بھی ہوں

اخباری مالکان کے اپنے ہی اصول و ضوابط ہیں آپ ہوں حامد میریا مبشر لقمان ہر ادارے کا مالک ایسی ہی سوچ رکھتا ہے جیسی سوچ کسی سیاسی جماعت کا سربراہ اور وہ اپنی جماعت کے عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے عوامی نمائندے کو بھی اپنا ضمیر بیان کرنے کی اجازت نہیں دیتا یہ تو آپ جیسے سنئیر جہاندہ صحافیوں کو چاہیے کہ ان کی رپورٹس محنت سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے مختلف ادرون کے ما لکان کو پابند کریں ملک عزیز کے لاکھوں میرے جیسے علاقائی رپوٹرز کویہ مالکان کوئی اعزازیہ نہیں دیتے ہیں الٹا سیکورٹی کے نام پر ایڈوانس ماھانہ سالانہ مختلف اہم ایام مبارکبادی کے نام پر اشتہارات کا نذرانہ الگ وصول کیا جاتاہے اس سے نو دو لتیے جرائم پیشہ عناصر خود یا انکے آلہ کا ر اس مقدس شعبہ سے وابستہ ہو کر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کرتے ہیں

روف کلاسرہ وفاقی دارلحکومت میں رہنے والا سنئیر صحافی ہے اس نے بڑے دلیرانہ انداز میں اپنا ما فی الضمیر بیان کیا مگر میں علاقائی طور پر قارئین کو بتاتا چلوں یہاں ایجنسیاں نہیں مثبت محب وطن ہونے کے ناطے حقائق پر صحافت کرنے والے صحافی کی ہسپتال میں ٹریفک حادثے میں زخمی ہونے پر مسیحا ڈاکٹر پٹی نہیں کرتا ہے آپریشنھ تھیٹر میں جب وہ ایک لڑکی کا آپڈنس کا آپریشن کر رہا ہو تا ہے اور اسے بتا یا جاتا ہے کہ مریضہ فلاں صحافی کی بہن ہے تو ڈاکٹر آپریشن ادھورا چھوڑ کر کہہ دیتا ہے مریضہ کو ڈسٹرکٹ ہسپتال لے چلوں یہاں اس کا آپریشن ممکن نہیں ہے

علاقائی صحافت میں بھی تھانے کی معمولی خبر تک اس صحافی کی رسائی ہوتی ہے جو کوئی بھی خبر اپنے ادارے کو میل فیکس کرنے سے پہلے سپیشل برانچ سی آئی ڈی کے اہل کار کو دے ماضی میں سابق وفاقی وزیر مملکت سردار بہادر خان سیہڑ نے چوک اعظم میں پریس بریفنگ دی اس میں ایجنسیوں کے آلہ کار صحافیوں میں سے کو ئی صحافی موجود نہیں تھا اگلے دن وہ خبر شاءع ہو گئی تو ایجنسیوں کے اہل کاران اس بات پر بضد تھے کہ انہیں لکھ کر دیا جائے کہ اییسی پریس بریفنگ چوک اعظم میں نہ ہوئی ہے

یہ تو چند مثالیں تھیں یہاں تو صحافتی امور سر انجام دیتے ہوئے ایسے کھٹن دشوار گزار مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جو نا قابل تحریر ہیں نہ صرف اخباری مالکان بلکہ انتظامی آفیسران سیاست دان بھی اسی ٹوہ میں رہتے ہیں کہ کب موقع ملے جب ہم صحافیوں کو باہم دست و گریبان کر دیں صحافی آپس میں الجھے رہیں اور کرپشن پسماندہ طبقات پر ہونے والے ظلم و ستم اور نا انصافی کی کہا نیاں میڈیا میں نہ آسکیں

آزاد عدلیہ کے بعد آزاد میڈیا صحافتی انقلاب کی ابتداء کی پہلی اینٹ اسی وقت رکھی گئی ہے جب ظالموں کی پہلی گولی حامد میر کے جسم میں پیوست ہوئی آض ملک عزیز میں تیرے صحافی میرے صحافی نہیں بلکہ وطن عزیز کے نامور صحاٖفی ابن صحافی پر قاتلانہ حملے کے خلاف ہر چوک اور چو راہے پر نہ صرف صحافتی بلکہ سیاسی سماجی مذہبی کاروباری سول سو ساءٹی کی تنظی میں سراپا اجتجاج ہیں صحافت کے میر جعفروں کی نئی ناریخ رقم ہو رہی ہے مگر تاریخ میں سنہری حروف میں بھی کچھ لکھا جارہا ہے اب نئی صحافتی اقدار روشناش ہونے جارہی ہیں اس ملک کا مستقبل روشن ہے اس ملک سے گداری کرنے والے ناکام و نامراد ہوئے صدمے اور دکھ میں پوری پاکستانی اور پوری امت مسلمہ پہلی ایٹمی اسلامی ریاست کے اس سپوت کے ساتھ ہیں ملک پاکستان کا کوئی ادارہ کسی محب پاکستانی کے بارے ایسا لاءحہ عمل سوچ بھی نہیں سکتا ایساکرنا تو در کنار صحافی چھوٹا ہو یا بڑا اخبار یا ٹی وی سے منسلک ہو وہ صحافتی برادری کا حصہ ہے دکھ کی اس گھڑی میں پوری صحافی برادری جنگ جیو کے ساتھ ہے اور حامد میر کی جلد صحت یابی کے لیے دعاگو ہے مگر صدمے کی اس گھڑی مٰن صبر کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے اور حامد میر کے مداح یا ناقدین ایسا رویہ نہ اپنائیں جس سے ریاست کے اس چوت ھے ستون سے وابستہ لوگ طعن و تشنیع کا سبب بنیں اللہ رب العزت ہ میں اپنے حفظ وامان میں رکھتے ہوئے حاسدین کے حسد شر پسندوں کے شر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top